Fifty Reasons for Being a Homeopath by James C. Burnett
You can have what opinion you like of my old pleuritic affection: I had the wretched thing till I took Bryonia and I have never had it since. Myself, I am sweetly content with my second reason for being a homoeopath. I never said the remedy was first used by the homoeopaths, that is not of the essence of my proposition.
آپ میری پرانی سینے کی جھلی کی سوزش کے بارے میں جو چاہیں رائے رکھیں: مجھے یہ تکلیف اس وقت تک رہی جب تک میں نے برائیونیا نہ لی، اور اس کے بعد یہ کبھی دوبارہ نہیں ہوئی۔ مجھے خود اپنی دوسری وجہ سے کہ میں ہومیوپیتھ ہوں، دلی اطمینان ہے۔ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ دوا سب سے پہلے ہومیوپیتھک طریقے میں استعمال ہوئی تھی، کیونکہ یہ بات میرے مؤقف کا اصل حصہ نہیں ہے۔
Since going over into the homoeopathic camp, I have often had to treat pleurisy : that you will not find it difficult to believe. Aconite and Bryonia are the big guns of the homoeopaths for pleurisy, but I will remark as the outcome of my own experience that it is only in what I would call Pleuritis Rheumatica that they really hit the mark. Let me relate such a case to you as my third reason for being a homoeopath.
ہومیوپیتھی کے میدان میں آنے کے بعد مجھے اکثر پلورسی کا علاج کرنا پڑا ہے: اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو اس بات پر یقین کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ ایکونائٹ اور برائیونیا پلورسی کے علاج میں ہومیوپیتھس کی بڑی دوائیں مانی جاتی ہیں، لیکن میں اپنی ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ عرض کروں گا کہ یہ صرف اُس حالت میں مؤثر ثابت ہوتی ہیں جسے میں پلورائٹس ریومیٹیکا کہتا ہوں۔ آیئے میں آپ کو ایک ایسا ہی کیس سناتا ہوں، جو میری تیسری وجہ ہے کہ میں ہومیوپیتھ ہوں۔
Some years since I was suddenly summoned to the suburban house of a city merchant, who had caught a chill two evenings before on returning from a political meeting ; when I arrived, an exquisite case of pleurisy, pleuritis rheumatica presented itself.
کچھ برس پہلے مجھے اچانک ایک شہر کے تاجر کے مضافاتی گھر بلایا گیا، جنہیں دو شام پہلے ایک سیاسی اجلاس سے واپسی پر ٹھنڈ لگ گئی تھی؛ جب میں وہاں پہنچا تو ایک نہایت واضح اور مکمل کیس سامنے آیا ۔ یہ تھا پلورسی، بلکہ پلورائٹس ریومیٹیکا۔
The gentleman’s wife informed me that she was much exercised in her mind, as many friends had strongly urged her not to have homoeopathy in such a serious case: All very well, said they, perhaps, for women and children, but she surely was not going to risk her dear husband’s life in the hands of a homoeopathic practitioner? No, she would have Dr. X., who lived nearby. But though as a rule L’homme propose et la femme dispose, in this case it was the other way about: the husband flatly refused any other than homoeopathic treatment, and hence my presence. He was in a raging fever and much pain, and merely moaned ” Doctor, give me relief from this pain, and procure me some sleep.”
اس آدمی کی بیوی نے مجھے بتایا کہ وہ بہت پریشان ہیں کیونکہ اُن کے کئی دوستوں نے کہا تھا کہ اتنی خطرناک بیماری میں ہومیوپیتھی کا علاج نہ کروائیں۔ اُن کا کہنا تھا، “ٹھیک ہے، شاید عورتوں اور بچوں کے لیے ہومیوپیتھی مناسب ہو، لیکن کیا واقعی تم اپنے شوہر کی جان ایک ہومیوپیتھ کے حوالے کرنے جا رہی ہو؟” سب نے زور دیا کہ قریبی ڈاکٹر فلاں کو بلایا جائے۔ لیکن جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مرد سوچتا ہے اور عورت فیصلہ کرتی ہے، اس بار الٹا ہو گیا۔ شوہر نے صاف کہہ دیا کہ وہ صرف ہومیوپیتھی سے علاج کروائیں گے، کسی اور ڈاکٹر کو نہیں دیکھنا۔ اسی لیے مجھے بلایا گیا۔ اُس وقت انہیں تیز بخار تھا، بہت درد ہو رہا تھا، اور وہ بس کراہتے ہوئے کہہ رہے تھے: “ڈاکٹر صاحب، مجھے اس درد سے نجات دلائیں اور نیند دلوائیں۔
I gave Aconite and Bryonia—strong.
میں نے ایکونائٹ اور برائیونیا کی طاقتور خوراک دی۔
Next day he was already a little round the corner, and not in much pain, unless he incautiously turned. “Doctor,” said he, ” my friend Mr. – in — road over yonder, has, I am told, something of the same thing as I have, only more in the shoulder, and he has sent to me to beg me to give you up, and have his medical man, who lives nearby, and who is considered a very clever man—what am I to say?
اگلے دن وہ کچھ بہتر محسوس کر رہے تھے، اور زیادہ تکلیف نہیں تھی، بس جب بے دھیانی سے کروٹ لیتے تو درد ہو جاتا۔انہوں نے کہا، “ڈاکٹر صاحب، میرے دوست، جو اُس سڑک پار رہتے ہیں، اُنہیں بھی شاید کچھ ویسا ہی مسئلہ ہے جیسا مجھے ہوا، بس اُنہیں زیادہ کندھے میں تکلیف ہے۔ اُنہوں نے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ میں آپ کا علاج چھوڑ دوں اور اُن کے ڈاکٹر سے علاج کرواؤں، جو پاس ہی رہتے ہیں اور بہت قابل مانے جاتے ہیں — اب میں اُنہیں کیا جواب دوں؟
“I replied “Tell him from me that I shall have you well in your city office in a few days at work, and that on your way home from the city you may call, and you will still find HIM ill, and then you can tell him your experience, and compare notes.”
میں نے کہا،”انہیں میری طرف سے کہہ دیجیے کہ میں آپ کو چند دنوں میں صحت یاب کر کے واپس دفتر بھیج دوں گا، اور جب آپ شہر سے گھر واپس آئیں گے تو راستے میں اُن کے گھر جا سکتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ اب بھی بیمار ہوں گے، تب آپ اپنی کہانی اُنہیں سنا دیجیے گا اور دونوں علاجوں کا موازنہ کر لیجیے گا
And so it happened, in a few days—I do not remember the exact number— my patient went to his city office, did a small amount of work, and on returning home called on or sent to his said friend, who was still in great pain, and remained so for some time.
اور ایسا ہی ہوا۔ چند ہی دنوں میں — مجھے یاد نہیں کتنے دن — میرا مریض اپنے دفتر گیا، تھوڑا سا کام کیا، اور واپسی پر اپنے اُسی دوست کو ملنے گیا یا کسی کواس نے اسی صاحب کے پاس بھیجا، جو اب بھی سخت تکلیف میں مبتلا تھا اور کافی دنوں تک ویسے ہی بیمار رہا۔